Tuesday, February 12, 2019

استنبول کے دن (سفرنامہ)

کتاب: استنبول کے دن
مصنف: جمیل عباسی
نوعیت: سفرنامہ
سب سے پہلے تو سرورق پر ایک بھر پور نظر ڈالی اگرچہ پہلے اسکا دیداد کر چکی تھی لیکن ہاتھ میں آجانے کے بعد کتاب کو بغور دیکھنا اور پھر اسکی نئ نویلی سی خوشبو کو محسوس کرنا اور بات ہے۔ تو سروق کو ایک بھر پور نظر سے دیکھا اور اسکے ہر گوشے کو محسوس کیا یہ بھی کوئ قدیمی قسطنطنیہ کے سحر میں مبتلا کرتا ہے۔۔۔ گرینڈ بازار اور ساتھ آیا صوفیہ کی جھلک۔۔ قلمی نام "جیم عباسی" کی پہلی با ضابطہ تحریر یعنی کہ سفرنامہ۔۔
اسکا انتساب بھی بلاشبہ بہت خوب ہے ۔۔
عظمیٰ کے نام
اور عظمیٰ کے نام کے ساتھ ہی مجھے تارڑ صاحب کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں عظمیٰ جو کہ جمیل ہے تو خوب صورت ہوا نا پھر ۔
اب جمیل عباسی کا تارڑ صاحب کے ساتھ جو عقیدت اور محبت کا تعلق ہے وہ اب ڈھکا چھپا نہیں بلکہ یہ بہت ہی گہرا ہے اور اسکا ثبوت تارڑ صاحب کے اپنے الفاظ میں دیباچہ کی صورت موجود ہے جو کہ ایک رشک آمیز کیفیت کا باعث ہے ماشاءاللہ ۔
اور دیباچہ میں جو کچھ تارڑ صاحب نے جمیل عباسی کے لیۓ تحریر کیا آگے سفر نامہ اسکی گواہی دیتا ہے کہ ایک قاری جب اسے پڑھنا شروع کرتا ہے تو پھر اسے اس سفرنامے کو پڑھے بنا ایک طرف رکھ دینا مشکل ترین ہوجاتا ہے۔۔ ایک سبک رفتار روانی دلچسپ تحریر مسکراتی سطریں جو کہ جیم عباسی کے اپنے مرشد کے نقش قدم انکی رہنمائ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔۔۔
وہ کسی بیعزت سٹیشن کو عزت دینا ہو، آٹمن پرنس بننا ہو، پینڈو پت ہوتے ہوۓ نہ ہونے کا احساس ہو۔۔۔ خود کو "عربی" نا ثابت کرنے کی تغ و دو ہو یا ٹورسٹ ٹیسلری کیملیکا کی خواری ہو باقیوں کو بے وقوف سمجھتے ہوۓ ۔۔ بہت ہی خوب صورت مسکراتا ہوا عہد جدید میں کچھ قدیمی معلومات سے لیس ایک بہت دلچسپ سفرنامہ۔۔

ٖ"FALLING LEAVES RETURN TO THEIR ROOTS"

"FALLING LEAVES RETURN TO THEIR ROOTS"
Novel.
Really heart touching story of the bitterness of the relationships, courage of the little unwanted girl,her inner wish to get love of her siblings, inspite of the quarrel behaviour of her siblings she still wish to unite her family but ... n yes at last proud for her father n some how for step mother ... yes happy about her on as she got a love able husband who always be there for her, what ever was gng on.
"Bob was the only man i knew who professed his love, not by words, but by his every action.Towards the end of that year,for his birthday, I sent him a card.
"The day you were born was the luckiest day in my life. Your love shields me from life's worst blows.With you, I feel completely safe. Thank you for always being there for me.
(" Falling leaves return to their roots" a true story of Adeline yen mah)

سدھارتھ (ناول)

کتاب:سدھارتھ 
مصنف: ہرمن ھیسے
 ترجمہ: آصف فرخی
نوعیت: ناول
تبصرہ:سمیرا انجم 
ایک ایسا ناول جو خود آگاہی ،اپنی ذات میں جھانکنے اپنی اصل کو جاننے، ہر شے کو ایک ایسی آنکھ سے دیکھنے کی دعوت دیتا ہے کہ جس میں چیزیں صاف اور اپنی تخلیق کے اصل مقصد کو جاننے کی طرف مایؑل کرتی ہیں۔۔ ناول کا مرکزی کردار کس طرح سے اس سفر پہ نکلتا ہے اور اسکے علم،اگاہی کی منزلیں اسے کیا کیا سکھاتی ہیں ۔۔ اور وہ کن مراحل سے وہ سب جانتا ہے جو اسکو بہت شروع کی سٹیج پہ سفر پہ نکلنے پہ مجبور کرتا ہے۔۔ جہاں ہر مقام پر اسکی تشنگی،کچھ کمی کا احساس اسے بے چین کرتا ہے وقتی طور پہ کچھ سکون کے باوجود بھی۔۔ دنیا تیاگ کر بھی اور اس دنیا میں رہ کر بھی اس کے معمول کے طرز زندگی کو گزار کر بھی۔۔۔۔ سو تجربات سے خود آگاہی کی منازل طے کرتے سدھارتھ اسی طرف لوٹ جاتا ہے جو فطرت ہے جس سے ہمکلام ہونا بہت آسان ہے اتنے کشٹ کرنا ضروری نہیں ۔۔ smile emoticon
مسلمان کی حثیت سے وہی بات ک مظاہر قدرت پہ غور ہ فکر آپکو اپنی ذات کا عرفان بھی دیتا ہے اور اس ذات کا بھی جس نے یہ سب تخلیق کیا۔۔۔۔
ایک بار قلم سے نکلا تھا
سسی وچ تھلاں دے پھردی کردی پُنل پُنل
جے کر مارے جھاتی،او بیٹھا دل دے اندر smile emoticon
اقتباسات ناول
"لکھنا اچھا ہے' سوچنا اس سے بہتر- ہوشیاری اچھی ہے صبر اس سے بہتر"
"زیادہ ترلوگ گرتے پتے کی طرح ہعتے ہیں جو ہوا میں اُڑتا پھرتا ہے'گھومتا ہے' پھڑپھڑاتا ہے'زمین پر گر جاتا ہے۔ مگر کچھ لوگ ستاروں کی طرح ہوتے ہیں اور جانے بوجھے راستے پر سفر کرتے ہیں،انکو ہوا کا کویؑ جھونکا متاثر نہیں کرتا' اور انے اندر آپ اپنا رہنما اور آپ اپنی راہ پوتی ہے"
"ایک سچا کھوجنے والا کسی بھی تعلیم کو قبول نہیں کرسکتا،اگر وہ واقعی کچھ پانا، کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے تو۔ مگر وہ جو پا لیتا ہے وہ ہر راستے ہر منزل کی تصدیق کر سکتا ہے'
۔
۔
۔
۔
۔
۔
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ بھی ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
(غالب)

کئ چاند تھے سر آسمان (ناول)

کتاب: کئ چاند تھے سر آسمان
مصنف: شمس الرحمن فاروقی
نوعیت: ناول تاریخی
صفحات : 830

جو لوگ شستہ اردو زبان پڑھنے کا زوق رکھتے ہیں انکے کتب خانہ میں یہ ناول ایک بہت اچھا اضافہ ہے۔۔۔ مجموعی طور پہ مجھے اس کو پڑھ کے بہت مزا آیا ۔۔میری رائے اس ناول بارے جو حقیقی ہی لگتا ہےکیا خوب اس میں شُستہ اردو زبان ہے وللہ لطف آگیا۔۔۔ اٹھارویں صدی کے اخیر سے اس میں کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے ۔۔۔ غالب کا زمانہ،مشاعرے۔۔ ۔۔ فرنگیوں کی من مانیاں۔۔۔اس دور کا رہن سہن۔لباس،عمارات کو اتنی تفصیل سے بیان کیا اور ایسی اردو کہ باوجود کچھ عجیب محسوس کرنے کے آپ بھر پور لطف اندوز ہوتے ہیں۔۔
یہ ناول نواب مرزا داغ کے خاندان کا تانا بانا ہے ۔۔۔
وزیر خانم (والدہ مرزا داغ) کو ایک مضبوط اور خودار کردار کے طور پر دکھایا گیا ہے جو چاہتی ہے کہ عورت کی اپنی ایک حثیت ہے وہ اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے کسے مرد کی پابند کیوں ہو۔۔ اگر ایک مرد کی نظر سے کہوں تو اپنی من مانی کرنے والی خود سر ... لیکن اس کردار کے ساتھ سب اچھا ہوتے ہوۓ بھی ایک ٹریجڈی ہے۔۔۔
ایک وقت آتا ہے کہ مرزا داغ اپنی والدہ سے کہتا ہے
"نصیب نہ ملے عقل تو ملی،اور حسن ذاتی اس پر مستزاد"
اردو زبان کا ایک بہترین ناول اب تک جو میں پڑھ چکی ہوں۔۔

انسان ،اے انسان (ناول)

انسان ،اے انسان
مصنف حسن منظر
نوعیت:ناول
تبصرہ: سمیرا انجم 
دلچسپ آغاز ۔۔لیکن تھوڑا پڑھنے پر لگا کہ روایتی انداز کا ناول ہے جیسے کم مو بیش بڑے پلاٹ کے ناول ہوتے ہیں۔ مرکزی کردار تلمیذ کی زندگی کے گرد گھومتا ہوا اسکا بچپن، لڑکپن اور پھر آگے کی زندگی۔۔۔کچھ جغرافیائ تبدیلیوں کا ذکر معاشرے میں موجود تضادات اور ایک عام انسان پر اسکے اثرات، بہت مذہبی ماحول کے گھرانے میں تعصب انگیز روک ٹوک اور پھر اس انسان پر کہ جس کی شخصیت ابھی بننے کے مرحلے میں ہیں اس پر کچھ منفی اثرات۔۔ کہانی بڑھتی گئ ۔۔ایک مقام پر لگا کہ شاید کچھ جمود سا ہے لیکن پھر جب مرکزی کردار کو پابند سلاسل بھگتنا پڑا تو اس دوران کی نفسیات انسانی خاصی دلچسپ لگی۔ اور تب تک جو ذہن میں اس ناول کے حوالے سے ایک تبصرہ ابھرا تو سوچا یہی اس کے اختیتام پر ہوگا ۔۔۔لیکن پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناول کی آخری سطروں نے ایک دم سے کایا پلٹ دی۔۔۔۔ اور پھر بے اختیار یہی زبان سے نکلا
انسان، اے انسان
بلاشبہ ناول کا نام اپنے اندر اس پورے ناول کو بساۓ ہوۓ ہے ۔۔اور یقیناََ ایک قاری کو اپنی گفت میں لے لیتا ہے خصوصاََ اسکا انجام ۔۔تو اس کو جاننے کے لیۓ ناول کی طویل لیکن دلچسپ مسافت کو طے کرنا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عجب سیر تھی

عجب سیر تھی!
مصنف: ڈاکٹر سلیم اختر
نوعیت: سفرنامہ
تبصرہ: سمیرا انجم 
یہ تین مختلف ممالک کے سفرناموں پر مشتم 163 صفحات کی کتاب۔ پہلا سفر نامہ مصنف کے بھارت یاترا کا ہے جہاں وہ ایک ادبی کانفرنس کے لیۓ مدعو کیۓ گۓ اور بچپن کے بعد پہلی بار بھارت گئے۔۔ یہ تھوڑا خشک سا ہے اور کچھ اکتا دینے والا بھی۔ کہ ہم نے تھوڑا ادھورا چھوڑ کے آواپسی کے سفر پر جا بسیرا کیا۔
باقی دونوں سفروں کا احوال دلچسپ بھی لگا اور اسکو پوری دلچسپی سے پڑھا بھی۔ مریشس کے سفر میں وہاں کی اچھی معلومات ملیں اور مصنف کا پاکستان سے تقابلی جائزہ بھی ساتھ ساتھ۔۔یہ تینوں سفر کے احوال میں ساتھ رہا۔
ڈنمارک کے سفر کے احوال میں بھی مختصر لیکن اچھی معلومات ملیں اور کچھ سیر ہوگئ ۔۔
یہ سفر 90 کی دہای میں کیۓ گۓ تھے۔اور کتاب 2003 میں سامنے آئ۔

ایک بات اس میں تارڑ صاحب کا زکر ہے اس حوالے سے جس کی وجہ سے واویلہ زیادہ ہوتا ہے لیکن اصل میں کم ہی ہے۔۔۔اور مصنف نے ذکر کیا اسی حوالے سے لیکن اگر تینوں سفر کو پڑھیں تو مصنف بھی خاصے بقول میری دوست "ن" کے "ٹھ" والی ساری حسرتوں کا اظہار بھی کرتے پاۓ گۓ اور مشاہدہ بھی اسی حوالے سے کیا خاص موقعوں پر۔
ایک نمونہ ملاحظہ ہو جب ہوٹل کی مالکن خود مصنف کے لیۓ صبح کا ناشہ لاتی ہیں۔
"وہ صبح کو خود ناشتہ کی ٹرے لے کر آتی ہے ۔ میک اپ کے بغیر دھلی دھلائ ٹی شرٹ اور جینز میں وہ سکول کی بچی لگتی ہے۔ کسی بڑے ہوٹل کی مالکہ نہیں۔ میں نے اسے غلط نہ کہا تھا تم تو خود سولہ سال کی لگتی ہو۔ میں بالعموم صبح ناشتہ میں دو سادہ ٹوسٹ لیتا ہوں اور گھر سے باہر کھانے میں اور بھی محتاط ہو جاتا ہوں مگر اس دن یہ سوکھے ٹوسٹ فرنچ ٹوسٹ میں تبدیل ہوگۓ( میں اس سے زیادہ دور کی تشبہیہ نہیں سوچ سکتا)
پیارے قارئین ! اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ مارشیس کی ہیر نے پاکستانی رانجھے کو اپنے ہاتھوں سے چوری کھلائ ہوگی۔۔۔ تو ایسی کوئ بات نہیں۔ میں سلیم اختر ہوں مستنصر حسین تارڑ نہیں! "
ایک اور نمونہ پیش ہے اگرچہ کچھ اور بھی ہیں جو پڑھنے پر ہی معلوم ہونگے ۔۔یہاں مصنف کو ہوٹل کی ایک ورکر جس کی مصنف نے اچھی خاصی تعریف کی تھی وہ انکو ہوٹل کے باہر تک چھوڑتے آتی ہے تو آگے آپ پڑھ لیں۔۔۔
" اچھا رخصت!
میں مصافحے کے لیۓ ہاتھ بڑھاتا ہوں ۔ وہ میرا ہاتھ تھام کر پنجوں کے بل اونچی ہو کر ، گال پر پیار کرتی ہے " یو آر اے رئیل جنٹلمین" بھر پور مسکراہٹ " یو ہیو میڈ مائ ڈے ۔ ار نو ۔۔ ڈے بٹ نائٹ" بھر پور پنسی۔
وہ مڑتی ہے۔
میں جاتی کو دیکھ رہا ہوں اسے اور اس کے خوب صورت سیاہ چمکیلے بالوں کو بلکہ ابھی تک دیکھ رہا ہوں۔ اندیشہ ہاۓ دور دراز۔"

دلچسپ ہیں احوال سفر

ایم ایم عالم

کتاب : ایم ایم عالم
مصنف: سکورڈن لیڈر زاہد یعقوب عامر
نوعیت: سوانح حیات
تبصرہ: سمیرا انجم 
ایم ایم عالم ایک ایسا نام جو جب بھی ذہن میں آیا جرات بہادری اور اور ایک فخر, محب وطن پاکستانی کا احساس دلاتا ہے ۔۔ کہ ان کے بارے میں جو بھی پڑھا جانا اس کے بعد بطور پاکستانی ایک فخر کا احساس رہا۔۔۔
ان پر لکھی سکواڈرن لیڈر زاہد یعقوب عامر ( بھائ) کی کتاب میرے ہاتھوں میں جب آئ تو دل کو بہت زہادہ خوشی سے بھر گئ کہ مجھے اسکا انتظار تھا اور میں اس عظیم ہیرو کے بارے میں اور زیادہ جاننا چاہتی تھی۔۔ شو مئ قسمت کہ جب یہ لکھی جارہی تھی تو اس میں ایک حوالے سے میں بھی وسیلہ بن گئ۔۔ جس کا اظہار زاہد بھائ نے کتاب پر میرے لیے لکھے الفاظ میں کچھ ایسے کیا ہے کہ میں کچھ بھی نہین کہہ پا رہی۔۔ مشکور ہوں سر کی۔
اور یقیناََ قوم کا یہ ہیرو عالم میں انتخاب تھا ۔۔
پیش لفظ میں تارڑ صاحب کے الفاظ
" کہتے ہیں نیوی سمندر گردی ہے ۔ آرمی مشقت و قربانی اور ائر فورس۔۔۔۔ ایک رومانس ہے۔۔ عشق ہے اور ایم ایم عالم اس رومانس کا سب سے بڑا ہیرو تھا ۔ "
سچ ہی کہا ائیر فورس ایک رومانس ہے جنون ہے جوش ہے عشق ہے ۔۔۔
اس کتاب میں ایم ایم عالم کی ذاتی زندگی انکے خاندان انکے دوست احباب کے ساتھ جو مراسم تھے جس عاجزی ،سادگی اور انکساری تھی اس عظیم سپوت میں اس کو جان کر بلا شبہ یقین آجاتا ہے کہ عظیم لوگ ایسے ہی عظیم نہیں ہوتے انکو دنیا کی بے جا عیش و آرام سے غرض نہیں ۔۔ہر کوئ ایم ایم عالم کی طرح وطن کی محبت میں سرشار نہیں ہوتا کہ انکو بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد وہاں کی فضائیہ کا سربراہ بننے کی پیش کش ہوئ لیکن انہوں نے پاکستان کو ترجیح دی اور کہا" میں پاکستانی ہوں۔۔ اس ملک کے ساتھ کیسے غداری کر سکتا ہوں۔۔۔"
ایک نا سمجھ اور شریر سوال کے جواب میں کہ انڈیا دس گنا طاقتور ہے تو ہم کیسے مقابلہ کریں تو انکا جواب نہیات ولولہ انگیز لہجے میں تھا " My Son you can teach a man how to fight but u can not teach him ,how to die?
اور ایسے ہی بہت ساری باتیں اور تصاویر ( جو عام طور پر کہیں نہیں دیکھی ) ہمارے اس ہیرو کے بارے میں اس کتاب میں مصنف نے اکٹھی کر کے ہم کو اپنے اس ہیرو کو اور زیادہ جاننے کا موقع دیا جس کے لیۓ ہم ان کے شکرگزار ہیں ۔۔۔۔
ہر وہ پاکستانی جو اس دھرتی سے محبت کرتا ہے اسے اپنے ہیرو کے بارے میں جاننا ضروری ہے ۔۔۔
کتاب پڑھتے ہوۓ کی جگہ آنکھیں نم بھی ہوئ اور جب وہ واقعہ وہ ریکارڈ بنے کی بات آئ تو سچ میں سانس روک کر پڑھنے والی کیفیات تھیں۔۔
اے دیدء بینا سوگ منا، اے قلب شناسا ماتم کر
جو روشنی بانٹنے آیا تھا وہ مہر منا ڈوب گیا۔۔
اللہ ایم ایم عالم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرماۓ امین۔۔۔
"نوجوان نسل ایک آزاد قوم کے اوصاف کو زندہ کرے۔ آزاد قوم کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ غیرت مند ہوتی ہے جب غیرت مر جاۓ تو قوم مر جاتی ہے۔ غیرت مند کبھی محکوم نہیں ہوتا۔ جناح دین دار تھے یا نہیں ، غیرت مند ضورو تھے ۔۔ نئ نسل کو چاہیۓ کہ وہ اس وصفکو اپنے کردار کا حصہ بناۓ"
ایم ایم عالم
ہر پاکستانی کو یہ کتاب ضرور پڑھنا چاہیۓ تاکہ اپنے ہیروز سے بہتر طور پر متعارف ہوسکیں فخر
کر سکیں۔۔۔